کینولا سرسوں کی کاشت

Author : Muhammad Afzal
Working to advance the whole of Pakistani agriculture that improve profitability, stewardship and quality of life by the use of Technology.
Studied at : KTH Royal Institute of Technology, Stockholm Sweden.
Co-founder : Nordic Experts AB Sweden
Lives in : Stavanger, Norway
From : Shorkot, Dist Jhang Pakistan
Timestamp: 31 December 2017 08:59 am

خوردنی تیل کی ملکی ضرورت پوری کرنے کیلئے حکومت خصوصی توجہ دے رہی ہے جس کے نتیجہ میں پچھلے سال کینولہ اور سورج مکھی کی فی من قیمت فروخت میں خاطر خواہ اضافہ ہوا جس سے امید کی جاتی ہے کہ سال 2002-03 میں مزید بہتری آئے گی۔2000-01 میں خوردنی تیل کی کل ضرورت 1797000 ٹن تھی جس کی مالیت 19.04 ارب روپے تھی اس میں سے 1151000 ٹن درآمد کیا گیا جب کہ 646000 ٹن ملکی پیداوار تھی۔اس طرح یہ کل فروخت کا 36 فیصد رہا۔کسان عام طور پر کینولہ کی فصل سے مانوس ہیں اور ان فصلوں کے طریقہ کاشت سے بھی بخوبی آگاہ ہیں ۔ملک بھر میں سرسوں کی یہ فصلات بڑے پیمانے پر کاشت کی جا رہی ہیں۔رایا سرسوں اور توریا گرم مرطوب جنوبی علاقوں میں اور گوبھی سرسوں شمالی سرد علاقوں میں کامیابی سے کاشت کی جاتی ہیں۔ یہ علاقے ان فصلات کی کاشت کے لئے موزوں ہیں۔ موجودہ سالوں میں گوبھی سرسوںکی میٹھی اقسام کو متعارف کرایا گیا ہے۔ ان اقسام میں شیرالی، ڈنکلڈ ، رینبو، آسکر اور دوغلی اقسام شامل ہیں۔ ان اقسام میں زہریلے اجزاء erucic acid اور glucosinolate بالکل نہیں ہوتے جبکہ ہماری مقامی اقسام میں یہ اجزاء شامل ہوتے ہیں ۔ جوان کے کڑواہٹ اور بوکا باعث بنتے ہیں۔ اور اس طرح تیل انسانوں اور کھلی جانوروں کے لئے نقصان دہ ہوتی ہے۔ پچھلے چند سالوں سے شعبہ روغنی اجناس ، قومی زرعی تحقیقاتی مرکز،اسلام آباد کے سائنسدانوں نے کینولا کی نئی اقسام کی جنیاتی تولید کے کام کا آغاز کیا تھا۔ پاکستان میں پہلی مرتبہ سرسوں کی مقامی اقسام میںجنیاتی تولید کی مدد سے کینولا کی کی خاصیت اس قسم میں پیدا کر دی ہے۔ میٹھی سرسوں کی اقسام کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ ان سے کھانا پکانے کا اعلی قسم کا تیل حاصل ہوتاہے۔ جوغذائیت کے لحاظ سے نہایت عمدہ سمجھا جاتاہے۔ سرسوںکی یہ اقسام کھادوں کا جلد اثر قبول کر تی ہیں۔ اور ان میں تیل کی مقدار بھی مقامی اقسام سے زیادہ ہوتی ہے۔ پچھلے کئی سالو ں سے ملک میں خوردنی تیل کی کھپت میں تیزی سے اضافہ ہورہاہے۔ اور اس طرح اس کی درآمد پر اخراجات 30 سے 35 ارب روپے تک پہنچ چکے تھے جو ملکی معیشت پر بہت بڑا بوجھ ہے۔لہذا وقت کا تقاضہ یہی ہے کہ ہم روغنی اجناس کو زیادہ سے زیادہ کاشت کریں۔ اور فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ کرکے ملکی معیشت پر پڑنے والے بوجھ کو کم کریں۔ کینولا کی فی ایکڑ بہترین پیداوار حاصل کرنے کے لئے کاشتکاورں کے لئے درج زیل سفارشات پیش کی جاتی ہیں۔ جن پر عمل پیرا ہوکر کاشتکار بھائی اپنی پیداوار میں اضافے کے ساتھ ساتھ اپنی آمدنی میں بھی معقول اضافہ کرسکتے ہیں۔

زمین کی تیاری:

کینولا سرسوں کو بھاری میرازمین پر کاشت کرنا چاہئے۔سیم زدہ اور ریتلی زمین اچھی فصل کے حصل کے لئے موزوں نہیں۔ بارانی علاقوں میں خریف کے موسم میں خالی کھیتوں میں ایک دفعہ گہراہل چلاکر وتر محفوظ کرلیں۔ اس بات کا خاص خیا ل رکھنا چاہئے کہ موسم برسات کے بعد زمین میں ہل نہ چلایا جائے صر ف کاشت سے پہلے ہلکا ہل چلا کر سہاگہ دے دینا چاہئیے تاکہ وتر ضائع نہ ہو۔ نہری علاقوںمیں کاشت سے پہلے دو یا تین مرتبہ ہل چلاکر ڈھیلیوں کو توڑ کر زمین ہموار کرلینی چاہئے۔ زمین کو پانی دینے کے بعد درمرتبہ ہل چلا کر سہاگہ دینا چاہیے۔کاشت کے وقت زمین کا چھی حالت اور وتر میں ہونا ضروری ہے۔

وقت کاشت:

کینولا کی اچھی پیدوار حاصل کرنے کے لئے فصل کو مناسب وقت پر کاشت کرنا چاہئے۔ کینولا کی فصل خالی زمینوں کے علاوہ ستمبر میں گنا اور مکئی سے فارغ ہونے والی زمین اور کپاس کی دوسری چنائی کے بعد کھڑی فصل میں کاشت ہوسکتی ہے۔ مختلف علاقوں میں کاشت کا شیڈول مندرجہ ذیل ہے۔ تاہم علاقائی موسمی حالات اور آبپاشی کے ذرائع کو بھی مد نظر رکھاجائے۔

وقتِ کاشت علاقہ صوبہ
15 اکتوبر تا 15نومبر پہاڑی علاقے بلوچستان
یکم اکتوبر تا 31 اکتوبر میدانی علاقے بلوچستان
یکم اکتوبر تا 31 اکتوبر شمال علاقے پنجاب
وسط اکتوبر تا وسط نومبر جنوبی علاقے پنجاب
15ستمبر تا 31 اکتوبر تمام علاقے سرحد
15 اکتوبر تا 15 نومبر تمام علاقے سندھ

طریقہ کاشت:

کینولا کو بذریعہ ڈرل کاشت کرنا چاہئے۔ گندم کاشت کرنے والی ڈرل میں 2 کلو کینولا کا بیج اور 38 کلو TSP یا DAP یا اتنی مقدار میں خشک مٹی یا ریت ڈال کر فصل کاشت کرنی چاہئے۔ ڈرل نہ ہونے کی صورت میں بذریعہ چھٹا بھی کاشت کی جاسکتی ہے۔ چھٹا سے کاشت کرنے سے پہلے بیج کو 12 گھنٹے بھگو لینے سے اچھی روئیدگی ہوتی ہے۔ بیج کو صبح سویرے یا شام کے وقت چھٹا کرنا چاہئے۔کھڑے پانی میں بیج کا چھٹا دے کر برسیم کی طرح بھی کاشت کی جاسکتی ہے۔ اس بات کی احتیاط کی جائے کہ بیج نہ ہی سطح زمین پر رہے اورنہ ہی زیادہ گہراجائے۔ بیج کی گہرائی ایک انچ سے ڈیڑھ انچ تک ہو اور قطاروں کا درمیانی فاصلا ایک سے ڈیڑھ فٹ ہونا چاہیے۔

شرح بیج

شرح بیج کا تعین کرتے وقت زمین کی قسم ،زمین کا درجہ حرارت ،زمین میں نمی کا تناسب،وقت کاشت ،طریقہ ،کاشت اور بیج کی شرح اُگائو کو ملحوظ خاطر رکھنا پڑتا ہے۔تاہم اگر طریقہ،کاشت اور بیج کی روئیدگی صحیح ہو تو 2 کلو فی ایکڑ استعمال کرنا چاہیئے۔

موزوں اقسام

سرسوں کی اچھی اور زیادہ پیداوار دینے پیداوار دینے والی اقسام کاشت کریں۔جن میں تیل کی مقدار زیادہ اور کڑواہٹ والے اجزاء کم ہوں لہذا زرعی ماہرین نے درج زیل سرسوں کی اقسام کی سفارش کی ہے۔ 1 - شیرانی،2 - ڈنکلڈ،3 - رین بو،4 - آسکر۔ان کے علاوہ حال ہی میں شعبہ روغنی اجناس ،این اے آرسی ،اسلام آباد کے سائنسدانواں نے پاکستانی ماحولیاتی خصوصیات کو مدنظر رکھتے ہوئے کینولہ کی دو نئی اقسام کینولہ۔رایا اور پاکولا دریافت کی ہیں جن کی پیداوار ی صلاحیت کافی بہتر ہے۔

کھاد کا استعمال

کھادوں کے استعمال کا انحصار زمین کی زرخیزی پر ہوتا ہے ۔ہمارے ملک کی اکثر زمینوں میں نائیٹروجن اور فاسفورس کی کمی ہے ۔لہذا عام حالات میں ایک بوری ڈی۔اے۔پی اور ایک بوری یوریا فی ایکڑ کے حساب سے ڈالیں ۔جدید تحقیق سے ثابت ہوا ہے۔کہ پوٹاش کے استعمال سے پودوں میں خشک سالی ،بیماری اور تیلے کے خلاف قوت مدافعت پیدا ہوتی ہے لہذا ایک بوری پوٹاش فی ایکڑ کے حساب سے ڈالیں ۔بارانی علاقوں میں تمام زمین کی تیاری کے وقت ڈالیں۔

آبپاشی

آبپاشی کا انحصار موسمی حالات پر ہوتا ہے۔تاہم سرسوں کو 12 سے 15 انچ پانی کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ تین چار مرتبہ آبپاشی سے پوری کی جاسکتی ہے۔اگر پھول آنے پر پھلیاں بنتے وقت اور بیج بنتے وقت زمین کی نمی میں کمی آجائے تو پیداوار پر بہت برا ثرپڑتا ہے۔لہذا پہلا پانی فصل کے اُگائو سے 30 تا 35 دنوں کے درمیان دینا چاہیئے جب کہ دوسرا پانی بیج بنتے وقت دینا بہت ضروری ہے۔

گوڈی و جڑی بوٹیوں کی تلفی

زیادہ پیداوار حاصل کرنے کے لیے جڑی بوٹیوں کو تلف کرنا ضرور ی ہے ۔ سرسوں کی فصل اگاؤ کے چند ہفتوں بعد جڑی بوٹیوں سے بہت متاثر ہوتی ہے ۔ لہذا اس وقت جڑی بوٹیوں کی تلف نہایت ضروری ہے۔وقت پر جڑی بوٹیوں کی تلفی سے پودے صحت مند اور توانا ہوجاتے ہیں ۔اس لیے اگر ممکن ہوسکے تو پہلی گوڈی پہلا پانی دینے سے پہلے کریں ورنہ پہلے پانی کے بعد وتر آنے پر گوڈی ضروی کریں۔

بیماریاں اور ان کا تدارک

کینولا کی فصل پر درج ذیل بیماریاں حملہ آور ہوتی ہیں جن کی علامات اور طریقہ ء انسداد و حسب ذیل ہے۔

تنے اور جڑکی سڑانڈ

اس بیماری سے تنا ،جڑاور پتے بُری طرح متاثر ہوتے ہیںکالے رنگ کے دھبے جن کا سائز 2.15ملی میٹر تک ہوتاہے۔نظر آتے ہیں ۔ یہ بیماری تنے اور شاخوں کے گودے میں بھی سرایت کر جاتی ہے۔ پھلیاں بھی اس کے حملے سے متاثر ہوتی ہیں

تدارک

زمین میں گہرا ہل چلانے، فصلوں کا ہیر پھیر اور صاف بیج کا استعمال کرنے سے بیماری کے حملے کو کافی حد تک روکا جاسکتا ہے ۔علاوہ ازیں تھایابینڈ ازول بحساب 200ملی گرام فی 100 کلوگرام بیج کے لیے استعمال کریں اور پھر کاشت کریں

Alternaria Black Spot الٹر نیریا کے کالے دھبے

یہ بیماری ننھے پودے کے دو پتوں پر ہلکے بھورے رنگ کے دھبے کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے جو بعد میںکالے ہوجاتے ہیں ۔اور پھر گہرے رنگ میں تبدیل ہوجاتے ہیں اور بالآخر پودا اپنے ابتدائی زندگی ہی مرجاتا ہے۔

تدارک

اگیتی اور مدافعت رکھنے والی اقسام کاشت کرنا ، وقت پر جڑی بوٹیوں کا تلف کرنا ،صاف اور بیماری سے پاک بیج کاشت کے لیے استعمال کرنا ، بُجائی سے قبل بیج کو دوائی لگانا فصل پر سرایت کرنے والی دوائی کا سپرے کرنا ۔ ان تمام عوامل کے کرنے سے بیماری کے حملے کو روکا جاسکتا ہے۔

کیڑے مکوڑے اور ان کا انسداد

میٹھی سرسوں پر مختلف اقسام کے کیڑے مکوڑے حملہ آور ہوتے ہیںااور ان کیڑوں کا بر وقت انسداد ضروری ہے تاکہ فصل کو زیادہ نقصان سے بچایا جاسکے ۔فصل کے اُگاؤ کے بعد اس پر گراس ہاپر کا حملہ زیادہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے فصل کو کافی نقصان پہنچتا ہے اور اکثر حالات میں اس کا تدارک ضروری ہوتا ہے۔ جب فصل پھول نکالنا شروع کرتی ہے تیلا کا حملہ شروع ہوجاتا ہے جو عام طورپر خشک موسم میںشدید نقصان پہنچاتا ہے اور اس کا تدارک بہت ضروری ہے ۔تیلا کو 25 EC POLO سے سپرے کرکے کنٹرول کیا جاسکتا ہے ۔ بہتر ہے کہ زمیندار بھائی محکمہ زراعت کے عملے سے مشورہ کرکے دوائی کا انتخاب کریں۔

وقت برداشت

جب فصل کا رنگ زرد ہوجائے 30 سے 40 فی فیصد پھلیاں بھورے رنگ کی ہوجائیں اور دانے نیم سرخی مائل ہوجائیں تو فصل کو فوراً کاٹ لینا چاہیے ۔اس کے بعد چار پانچ روز تک دھوپ میں خشک کرکے بیلوں کا ٹریکٹر سے گہائی کر کے بیج نکا ل لینے چاہیہں ۔صبح سویرے یا شام کے وقت فصل کی کٹائی کرنے سے بیج گرنے کا احتمال کم ہوجاتا ہے۔ گندم والے تھریشر سے اس کی گہائی آسانی سے کی جاسکتی ہے ۔لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ ٹریکٹر کی رفتا ر کم سے کم رکھی جائے۔

بیج کا ذخیرہ اور اس فروخت

بیج کو گہائی کے فوراً ہوا میں اڑاکر صاف کرلیں اور ذخیرہ کرنے سے پہلے دھوپ میں اچھی طرح خشک کرلیں تاکہ اسے پھپھوندی نہ لگنے پائے لہذا جب بیج میں نمی کی مقدار آٹھ فی صد یا اس کم ہو تو ذخیرہ کرلیں ۔ آئندہ سا ل کے لئے بیج محفوظ رکھنے کے صورت میں اسے دوائی لگا کر خشک گودام میں زخیرہ چاہیے ۔میٹھی سرسوں کینولا کا بیج نکالنے والی ملیںاچھی قیمت پر خرید لیتی ہیں اور مقامی منڈیوں میں آسان ی فروخت کیا جاسکتا ہے ۔ اس بیج کو لہوپر تیل نکلوا کر گھر میں کھانا پکانا کے لئے بھی استعما ل میں لایا جاسکتاہے۔

 
 
By continuing to use kisanlink you accept our use of cookies (view more on our Privacy Policy). X