Author : Muhammad Afzal
Working to advance the whole of Pakistani agriculture that improve profitability, stewardship and quality of life by the use of Technology.
Studied at : KTH Royal Institute of Technology, Stockholm Sweden.
Co-founder : Nordic Experts AB Sweden
Lives in : Stavanger, Norway
From : Shorkot, Dist Jhang Pakistan
Timestamp: 31 December 2017 08:59 am
کینولا سرسوں کو بھاری میرازمین پر کاشت کرنا چاہئے۔سیم زدہ اور ریتلی زمین اچھی فصل کے حصل کے لئے موزوں نہیں۔ بارانی علاقوں میں خریف کے موسم میں خالی کھیتوں میں ایک دفعہ گہراہل چلاکر وتر محفوظ کرلیں۔ اس بات کا خاص خیا ل رکھنا چاہئے کہ موسم برسات کے بعد زمین میں ہل نہ چلایا جائے صر ف کاشت سے پہلے ہلکا ہل چلا کر سہاگہ دے دینا چاہئیے تاکہ وتر ضائع نہ ہو۔ نہری علاقوںمیں کاشت سے پہلے دو یا تین مرتبہ ہل چلاکر ڈھیلیوں کو توڑ کر زمین ہموار کرلینی چاہئے۔ زمین کو پانی دینے کے بعد درمرتبہ ہل چلا کر سہاگہ دینا چاہیے۔کاشت کے وقت زمین کا چھی حالت اور وتر میں ہونا ضروری ہے۔
کینولا کی اچھی پیدوار حاصل کرنے کے لئے فصل کو مناسب وقت پر کاشت کرنا چاہئے۔ کینولا کی فصل خالی زمینوں کے علاوہ ستمبر میں گنا اور مکئی سے فارغ ہونے والی زمین اور کپاس کی دوسری چنائی کے بعد کھڑی فصل میں کاشت ہوسکتی ہے۔ مختلف علاقوں میں کاشت کا شیڈول مندرجہ ذیل ہے۔ تاہم علاقائی موسمی حالات اور آبپاشی کے ذرائع کو بھی مد نظر رکھاجائے۔
وقتِ کاشت | علاقہ | صوبہ |
---|---|---|
15 اکتوبر تا 15نومبر | پہاڑی علاقے | بلوچستان |
یکم اکتوبر تا 31 اکتوبر | میدانی علاقے | بلوچستان |
یکم اکتوبر تا 31 اکتوبر | شمال علاقے | پنجاب |
وسط اکتوبر تا وسط نومبر | جنوبی علاقے | پنجاب |
15ستمبر تا 31 اکتوبر | تمام علاقے | سرحد |
15 اکتوبر تا 15 نومبر | تمام علاقے | سندھ |
کینولا کو بذریعہ ڈرل کاشت کرنا چاہئے۔ گندم کاشت کرنے والی ڈرل میں 2 کلو کینولا کا بیج اور 38 کلو TSP یا DAP یا اتنی مقدار میں خشک مٹی یا ریت ڈال کر فصل کاشت کرنی چاہئے۔ ڈرل نہ ہونے کی صورت میں بذریعہ چھٹا بھی کاشت کی جاسکتی ہے۔ چھٹا سے کاشت کرنے سے پہلے بیج کو 12 گھنٹے بھگو لینے سے اچھی روئیدگی ہوتی ہے۔ بیج کو صبح سویرے یا شام کے وقت چھٹا کرنا چاہئے۔کھڑے پانی میں بیج کا چھٹا دے کر برسیم کی طرح بھی کاشت کی جاسکتی ہے۔ اس بات کی احتیاط کی جائے کہ بیج نہ ہی سطح زمین پر رہے اورنہ ہی زیادہ گہراجائے۔ بیج کی گہرائی ایک انچ سے ڈیڑھ انچ تک ہو اور قطاروں کا درمیانی فاصلا ایک سے ڈیڑھ فٹ ہونا چاہیے۔
شرح بیج کا تعین کرتے وقت زمین کی قسم ،زمین کا درجہ حرارت ،زمین میں نمی کا تناسب،وقت کاشت ،طریقہ ،کاشت اور بیج کی شرح اُگائو کو ملحوظ خاطر رکھنا پڑتا ہے۔تاہم اگر طریقہ،کاشت اور بیج کی روئیدگی صحیح ہو تو 2 کلو فی ایکڑ استعمال کرنا چاہیئے۔
کھادوں کے استعمال کا انحصار زمین کی زرخیزی پر ہوتا ہے ۔ہمارے ملک کی اکثر زمینوں میں نائیٹروجن اور فاسفورس کی کمی ہے ۔لہذا عام حالات میں ایک بوری ڈی۔اے۔پی اور ایک بوری یوریا فی ایکڑ کے حساب سے ڈالیں ۔جدید تحقیق سے ثابت ہوا ہے۔کہ پوٹاش کے استعمال سے پودوں میں خشک سالی ،بیماری اور تیلے کے خلاف قوت مدافعت پیدا ہوتی ہے لہذا ایک بوری پوٹاش فی ایکڑ کے حساب سے ڈالیں ۔بارانی علاقوں میں تمام زمین کی تیاری کے وقت ڈالیں۔
آبپاشی کا انحصار موسمی حالات پر ہوتا ہے۔تاہم سرسوں کو 12 سے 15 انچ پانی کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ تین چار مرتبہ آبپاشی سے پوری کی جاسکتی ہے۔اگر پھول آنے پر پھلیاں بنتے وقت اور بیج بنتے وقت زمین کی نمی میں کمی آجائے تو پیداوار پر بہت برا ثرپڑتا ہے۔لہذا پہلا پانی فصل کے اُگائو سے 30 تا 35 دنوں کے درمیان دینا چاہیئے جب کہ دوسرا پانی بیج بنتے وقت دینا بہت ضروری ہے۔
زیادہ پیداوار حاصل کرنے کے لیے جڑی بوٹیوں کو تلف کرنا ضرور ی ہے ۔ سرسوں کی فصل اگاؤ کے چند ہفتوں بعد جڑی بوٹیوں سے بہت متاثر ہوتی ہے ۔ لہذا اس وقت جڑی بوٹیوں کی تلف نہایت ضروری ہے۔وقت پر جڑی بوٹیوں کی تلفی سے پودے صحت مند اور توانا ہوجاتے ہیں ۔اس لیے اگر ممکن ہوسکے تو پہلی گوڈی پہلا پانی دینے سے پہلے کریں ورنہ پہلے پانی کے بعد وتر آنے پر گوڈی ضروی کریں۔
کینولا کی فصل پر درج ذیل بیماریاں حملہ آور ہوتی ہیں جن کی علامات اور طریقہ ء انسداد و حسب ذیل ہے۔
اس بیماری سے تنا ،جڑاور پتے بُری طرح متاثر ہوتے ہیںکالے رنگ کے دھبے جن کا سائز 2.15ملی میٹر تک ہوتاہے۔نظر آتے ہیں ۔ یہ بیماری تنے اور شاخوں کے گودے میں بھی سرایت کر جاتی ہے۔ پھلیاں بھی اس کے حملے سے متاثر ہوتی ہیں
زمین میں گہرا ہل چلانے، فصلوں کا ہیر پھیر اور صاف بیج کا استعمال کرنے سے بیماری کے حملے کو کافی حد تک روکا جاسکتا ہے ۔علاوہ ازیں تھایابینڈ ازول بحساب 200ملی گرام فی 100 کلوگرام بیج کے لیے استعمال کریں اور پھر کاشت کریں
یہ بیماری ننھے پودے کے دو پتوں پر ہلکے بھورے رنگ کے دھبے کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے جو بعد میںکالے ہوجاتے ہیں ۔اور پھر گہرے رنگ میں تبدیل ہوجاتے ہیں اور بالآخر پودا اپنے ابتدائی زندگی ہی مرجاتا ہے۔
اگیتی اور مدافعت رکھنے والی اقسام کاشت کرنا ، وقت پر جڑی بوٹیوں کا تلف کرنا ،صاف اور بیماری سے پاک بیج کاشت کے لیے استعمال کرنا ، بُجائی سے قبل بیج کو دوائی لگانا فصل پر سرایت کرنے والی دوائی کا سپرے کرنا ۔ ان تمام عوامل کے کرنے سے بیماری کے حملے کو روکا جاسکتا ہے۔
میٹھی سرسوں پر مختلف اقسام کے کیڑے مکوڑے حملہ آور ہوتے ہیںااور ان کیڑوں کا بر وقت انسداد ضروری ہے تاکہ فصل کو زیادہ نقصان سے بچایا جاسکے ۔فصل کے اُگاؤ کے بعد اس پر گراس ہاپر کا حملہ زیادہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے فصل کو کافی نقصان پہنچتا ہے اور اکثر حالات میں اس کا تدارک ضروری ہوتا ہے۔ جب فصل پھول نکالنا شروع کرتی ہے تیلا کا حملہ شروع ہوجاتا ہے جو عام طورپر خشک موسم میںشدید نقصان پہنچاتا ہے اور اس کا تدارک بہت ضروری ہے ۔تیلا کو 25 EC POLO سے سپرے کرکے کنٹرول کیا جاسکتا ہے ۔ بہتر ہے کہ زمیندار بھائی محکمہ زراعت کے عملے سے مشورہ کرکے دوائی کا انتخاب کریں۔
جب فصل کا رنگ زرد ہوجائے 30 سے 40 فی فیصد پھلیاں بھورے رنگ کی ہوجائیں اور دانے نیم سرخی مائل ہوجائیں تو فصل کو فوراً کاٹ لینا چاہیے ۔اس کے بعد چار پانچ روز تک دھوپ میں خشک کرکے بیلوں کا ٹریکٹر سے گہائی کر کے بیج نکا ل لینے چاہیہں ۔صبح سویرے یا شام کے وقت فصل کی کٹائی کرنے سے بیج گرنے کا احتمال کم ہوجاتا ہے۔ گندم والے تھریشر سے اس کی گہائی آسانی سے کی جاسکتی ہے ۔لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ ٹریکٹر کی رفتا ر کم سے کم رکھی جائے۔
بیج کو گہائی کے فوراً ہوا میں اڑاکر صاف کرلیں اور ذخیرہ کرنے سے پہلے دھوپ میں اچھی طرح خشک کرلیں تاکہ اسے پھپھوندی نہ لگنے پائے لہذا جب بیج میں نمی کی مقدار آٹھ فی صد یا اس کم ہو تو ذخیرہ کرلیں ۔ آئندہ سا ل کے لئے بیج محفوظ رکھنے کے صورت میں اسے دوائی لگا کر خشک گودام میں زخیرہ چاہیے ۔میٹھی سرسوں کینولا کا بیج نکالنے والی ملیںاچھی قیمت پر خرید لیتی ہیں اور مقامی منڈیوں میں آسان ی فروخت کیا جاسکتا ہے ۔ اس بیج کو لہوپر تیل نکلوا کر گھر میں کھانا پکانا کے لئے بھی استعما ل میں لایا جاسکتاہے۔